Saturday, August 17, 2019

قرآنی آیات کے وظیفے کی برکات کا عجیب و غریب قصہ . . . !!

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس آیت کو لے لیں تو یہ آیت لوگوں کو کافی ہوجائے گی۔

اور وہ آیت یہ ہے وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ سے آخر آیت تک۔ (تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۸۲، پ۲۸، الطلاق:۳)

وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا O وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا O

ترجمہ :۔اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بیشک اللہ نے ہرچیز کا ایک اندازہ رکھا ہے۔(پارہ28،سورہ الطلاق آیت2اور3)

ان دو قرآنی آیات کی برکات کا عجیب و غریب قصہ . . .

علامہ اجہوری نے اپنی کتاب ''فضائل رمضان'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ سمندر میں کشتی پر سوار ہو کر سفر کررہے تھے تو سمندر میں سے ایک آواز دینے والے کی آواز آئی مگر اس کی صورت نہیں دکھائی پڑی۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص مجھے دس ہزار دینار دے دے تو میں اس کو ایک ایسا وظیفہ بتا دوں گا کہ اگر وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ہو اور اس وظیفہ کو پڑھ لے تو تمام بلائیں اور ہلاکتیں ٹل جائیں گی۔ تو کشتی والوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا کہ آؤ میں تجھ کو دس ہزار دینار دیتا ہوں تو مجھے وہ وظیفہ بتا دے تو آواز آئی کہ تو دیناروں کو سمندر میں ڈال دے۔ مجھے مل جائیں گے۔

چنانچہ کشتی والے نے دس ہزار دیناروں کو سمندر میں ڈال دیا تو اس غیبی آواز والے نے کہا کہ وہ وظیفہ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ آخر آیت تک ہے تجھ پر جب کوئی مصیبت پڑے تو اس کو پڑھ لیا کرو۔ یہ سن کر کشتی کے سب سواروں نے اس کا مذاق اُڑایا اور کہا کہ تونے دس ہزار دیناروں کی کثیر دولت ضائع کردی تو اس نے جواب دیا کہ ہرگزہرگز میں نے اپنی دولت کو ضائع نہیں کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ قرآن شریف کی آیت ضرور نفع بخش ہو گی۔ اس کے بعد چند دن کشتی چلتی رہی۔ پھر اچانک طوفان کی موجوں سے کشتی ٹوٹ کر بکھر گئی اور سوائے اس آدمی کے کشتی کا کوئی آدمی بھی زندہ نہیں بچا۔ یہ کشتی کے ایک تختے پر بیٹھا ہوا سمندر میں بہتا چلا جارہا تھا یہاں تک کہ ایک جزیرہ میں اتر پڑا۔ اور چند قدم چل کر یہ دیکھا کہ شاندار محل بنا ہوا ہے اور ہر قسم کے موتی اور جواہرات وہاں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس محل میں ایک بہت ہی حسین عورت اکیلی بیٹھی ہوئی ہیں اور ہر قسم کے میوے اور کھانے کے سامان وہاں رکھے ہوئے ہیں۔ اس عورت نے اس سے پوچھا۔
''کہ تم کون ہو اور کیسے یہاں پہنچ گئے۔''
تو اس نے عورت سے پوچھا کہ :
''تم کون ہو اور یہاں کیا کررہی ہو؟''
تو اس عورت نے اپنا قصہ سنایا کہ میں بصرہ کے ایک عظیم تاجر کی بیٹی ہوں میں اپنے باپ کے ساتھ سمندری سفر میں جارہی تھی کہ ہماری کشتی ٹوٹ گئی اور مجھے کوئی اچانک کشتی میں سے اچک کر لے بھاگا۔ اور میں اس جزیرہ میں اس محل کے اندر اس وقت سے پڑی ہوں۔ ایک شیطان (جن) ہے جو مجھے اس محل میں لے آیا ہے وہ ہر ساتویں دن یہاں آتا ہے ۔ اور آج اس کے یہاں آنے کا دن ہے۔ لہٰذا تم اپنی جان بچا کر یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ وہ آ کر تم پر حملہ کردے گا۔ ابھی اس عورت کی گفتگو ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک دم اندھیرا چھا گیا تو عورت نے کہا کہ جلدی بھاگ جاؤ وہ آرہا ہے ورنہ وہ تم کو ضرور ہلاک کردے گا۔ چنانچہ وہ آگیا اور یہ شخض کھڑا رہا مگر جوں ہی شیطان اس کو دبوچنے کے لئے آگے بڑھا تو اس نے وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ کا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تو شیطان زمین پر گرپڑا۔ اور اس زور کی آواز آئی کہ گویا پہاڑ کا کوئی ٹکڑا ٹوٹ کر گر پڑا ہے اور پھر وہ شیطان جل کر راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔ یہ دیکھ کر عورت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو فرشتہ رحمت بنا کر میرے پاس بھیج دیا ہے۔ تمہاری بدولت مجھے اس شیطان سے نجات ملی۔ پھر اس عورت نے اس مرد سے کہا کہ ان موتی جواہرات کو اٹھالو اور اس محل سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کے کنارے چلو اور کوئی کشتی تلاش کر کے یہاں سے نکل چلو۔ چنانچہ بہت سے موتی و جواہرات اور پھل وغیرہ کھانے کا سامان لے کر دونوں محل سے نکلے اور سمندر کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی ''بصرہ'' جا رہی تھی۔ دونوں اس پر سوار ہو کر بصرہ پہنچے۔ لڑکی کے والدین اپنی گم شدہ لڑکی کو پا کر بے حد خوش ہوئے اور اس مرد کے ممنون ہو کر اس کو بہت عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر میں مہمان رکھا۔ پھر لڑکی کے والدین نے پوری سرگزشت سن کر دونوں کا نکاح کردیا اور دونوں میاں بیوی بن کر رہنے لگے۔ اور تمام موتی و جواہرات جو دونوں جزیرہ سے لائے تھے، وہ دونوں کی مشترکہ دولت بن گئے اور اس عورت سے خداوند تعالیٰ نے اس مرد کو چند اولاد بھی دی اور وہ دونوں بہت ہی محبت و الفت کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرنے لگے۔

(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۸۳، پ۲۸، الطلاق:۲)

درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اعمال و وظائف قرآنی میں بڑی بڑی تاثیرات ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بارےعقیدہ صاف رکھا جائےاور اعمال کو صحیح طریقے سے پڑھا جائے اور زبان گناہوں کی آلودگی اور لقمہ حرام سے محفوظ اور پاک و صاف ہو اور عمل میں اخلاص نیت اور شرائط کی پوری پوری پابندی بھی ہو۔ تو ان شاء اللہ تعالیٰ قرآنی اعمال سے بڑی بڑی اور عجیب عجیب تاثیرات کا ظہور ہو گا۔ جس کی ایک مثال آپ نے پڑھ لی۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔

نوٹ:۔ تفسیر صاوی شیخ احمد بن محمد الصاوی المصری المالکی کا مایہ ناز تفسیری حاشیہ ہے۔ امام صاوی 1175ہجری کو پیدا ہوئے اور ان کی وفات 1241 ہجری کو ہوئی۔یہ تفسیر ی حاشیہ انہوں نے تفسیر جلالین کے اوپر لکھا ہے۔ تفسیر جلالین امام جلال الدین المہالی (وفات 864 ہجری) اور ان کے مشہور ترین شاگردامام جلال الدین سیوطی الشافعی (وفات 911 ہجری) کی مایہ ناز تصنیف ہے۔اور امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یہ کثیر کتابوں کے مصنف ہیں اوران کی بہت سی کتابوں کے اردو ترجمے بھی دستیاب ہیں۔

No comments:

Post a Comment